Milk and fruit in the palm ksaf
Milk and fruit in the palm ksaf |
رمضان کا مہینا پوری آب و تاب کے ساتھ ہم پر سایۂ فگن ہے اور مسلمانوں کو عید کی خوشیاں دے کر رخصت ہو جاتا ہے۔
دنیا بھر کی مسلم خواتین سارا سال امور خانہ داری میں مصروف رہنے کے
باوجود، رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں خصوصی عبادت کے ساتھ سحری اور
افطاری کا انتظام کرتی ہیں۔ جب رمضان المبارک میں پورا خاندان ایک ساتھ
بیٹھ کر سحر و افطار میں بننے والے ان خاص اور روایتی پکوان سے لطف اندوز
ہوتا ہے، گھر کی عورتوں اور خواتین کے چہرے دمک اٹھتے ہیں۔ وہ خوشی خوشی
رشتے داروں اور دوست واحباب کے ساتھ مل کر افطار پارٹیاں بھی ترتیب دیتی
ہیں۔ کچھ گھروں میں پہلا روزہ رکھنے والے بچوں کی روزہ کشائی کی تقریب ادا
کی جاتی ہے۔
درحقیقت سحری اور افطاری کے پکوان، روایات اور ثقافت کے آئینہ دار ہوتے
ہیں۔ ہمارے ہاں، چھولے، پکوڑے، دہی بڑے، کچوری، فروٹ چاٹ، سموسے، کھجور
اور شربت وغیرہ افطار کا لازمی جزو ہیں، جب کہ سحری میں زیادہ تر ڈبل روٹی،
کھجلہ، پھینی، پراٹھے، سالن، دہی، کباب اور لسی یا چائے کا اہتمام کیا
جاتا ہے۔
دنیا بھر میں افطاری کا سب سے بڑا اہتمام خانہ کعبہ میں کیا جاتا ہے۔
سعودی عرب میں افطار کے لیے دسترخوان پر روٹی، دہی، جوس، قہوہ وغیرہ کا
اہتمام ہوتا ہے۔ کچھ گھروں میں سینڈوچ اور مٹھائیوں سے رغبت کی جاتی ہے۔
تیونس کی خواتین دسترخوان پر سحر و افطار میں پودینے کی خوش بودار سبز
چائے لازمی رکھتی ہیں۔ ملائیشیا کی خواتین تراویح کے بعد کھانا لگاتی ہیں۔
اس میں قدیم روایتی پکوان اور چائے شامل ہوتی ہے۔ انڈونیشا کی خواتین
افطاری کے پکوان میں پھلوں کا استعمال زیادہ کرتی ہیں، زیتون بھی لازمی ان
کے دسترخوان کی زینت بنتا ہے۔ ان کے ہاں سحری میں مونگ پھلی کا حلوہ خاصے
کی چیز ہے۔ افغانستان میں جلیبی اور مٹھائی سے دسترخوان سجتا ہے۔ ایرانی
خواتین روزہ کھلوانے کے لیے چائے اور نون (روٹی) کا اہتمام کرتی ہیں۔ افطار
کے دیگر لوازمات میں وہاں مٹھائیاں، پنیر اور حلوہ جات بھی شوق سے نوش کیے
جاتے ہیں۔
سنگاپور میں مسلم خاندان گھر سے باہر جا کر سحر و افطار کرتے ہیں۔ رمضان
کے دوران انہیں فوڈ کورٹ اور ریستوران میں یہ سہولت مل جاتی ہے۔
متحدہ عرب امارات میں خاص طور پر ’’رمضان خیمے‘‘ لگا دیے جاتے ہیں، جہاں
مختلف ممالک سے آکر کام کرنے والے مسلمان خاندان افطار کرتے ہیں۔ اس کے
علاوہ مساجد میں بھی یہ سہولت میسر ہوتی ہے۔
ترکی کی خواتین بڑے ذوق و شوق سے افطار کا انتظام کرتی ہیں۔ ان کے ہاں
بسکٹ اور مٹھائیاں لازمی دکھائی دیتی ہیں۔ اسپین میں رہنے والی مسلمان
خواتین ’ون ڈش‘ کا انتظام ضرور کرتی ہیں اور دوست احباب اپنے خاندان کے
ساتھ ایک جگہ جمع ہو کر افطار اور سحری کرتی ہیں۔
مصر کی خواتین افطار میں ایک روایتی مشروب تیار کرتی ہیں۔ یہ دودھ میں
بھیگے ہوئے کھجور اور میوہ جات ہوتے ہیں جو خشاف کہلاتے ہیں۔ یہاں رمضان سے
جڑی ایک دل چسپ روایت ’’رمضان فانوس‘‘ بھی ہے۔ اس ماہ کے شروع ہوتے ہی ایک
مخصوص ساخت کے فانوسوں سے گھروں، بازاروں اور محلّوں کو سجا دیا جاتا ہے۔
اس کا قدیم پس منظر کچھ یوں ہے کہ مصر کے کسی خلیفہ کے دور میں مصری خواتین
کو صرف ماہ صیام میں بغیر محرم کے گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت تھی اور
تب وہ اپنے ہاتھ میں ایک دھاتی فانوس لیے ہوتی تھیں، جس کی روشنی سے مرد
حضرات کو پتا چل جاتا تھا کہ اس راہ سے کوئی عورت گزرنے والی ہے اور وہ
وہاں سے پرے ہٹ جاتے۔ اب خواتین کے لیے ایسی کوئی قدغن تو نہیں رہی، مگر
فانوس کی روایت آج بھی رمضان میں اسی ذوق و شوق سے برقرار ہے۔ ان کی
خریداری بالکل عید کی خریداری کی طرح کی جاتی ہے۔
کشمیر میں خواتین پورے رمضان کھیر ضرور بناتی ہیں۔ بھارتی مسلمان خواتین
ماضی میں گھر کی بنی ہوئی موٹی سویاں اور گڑ دودھ میں ڈال کر کھانے کے لیے
پیش کرتی تھیں، اب بھی کہیں کہیں یہ روایت قائم ہے۔ اس کے علاوہ پکوڑے،
کھجلا، پھینی، دودھ اور سبزی کا استعمال سحری اور افطاری میں ضروری کیا
جاتا ہے۔ جنوبی ہندوستان میں حلیم اور چاٹ شوق سے کھائی جاتی ہے، شمالی ہند
کے کچھ علاقوں میں ایک خاص مشروب پینے کا رواج ہے، جس میں ناریل، کاجو اور
دیگر میوہ جات پیس کر ملائے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ چپاتی نوش کی جاتی ہے۔
بھارت میں کہیں کیلے اور دودھ سے سحری شوق سے کی جاتی ہے تو کہیں دودھ
پاؤ (بن)کھایا جاتا ہے۔ تامل ناڈو میں افطاری میں کھجور اور چاول پکائے
جاتے ہیں۔
ہندوستان میں رمضانوں میں پاؤ یا کڑک بن سے سحری اور افطاری شوق سے کی
جاتی ہے۔ اسی لیے وہاں کی بیکریوں میں پورے مہینے خاص حجم اور نت نئے نقش
ونگار والے پاؤ ملتے ہیں، جسے بطور خاص خواتین زینت دسترخوان کرتی ہیں۔
مغربی بنگال میں خاص طریقے سے پکی ہوئی مچھلی اور حلوہ دسترخوان کی رونق
بڑھاتے ہیں۔